EN हिंदी
سر پر تھی کڑی دھوپ بس اتنا ہی نہیں تھا | شیح شیری
sar par thi kaDi dhup bas itna hi nahin tha

غزل

سر پر تھی کڑی دھوپ بس اتنا ہی نہیں تھا

منظور ہاشمی

;

سر پر تھی کڑی دھوپ بس اتنا ہی نہیں تھا
اس شہر کے پیڑوں میں تو سایا ہی نہیں تھا

پانی میں ذرا دیر کو ہلچل تو ہوئی تھی
پھر یوں تھا کہ جیسے کوئی ڈوبا ہی نہیں تھا

لکھے تھے سفر پاؤں میں کس طرح ٹھہرتے
اور یہ بھی کہ تم نے تو پکارا ہی نہیں تھا

اپنی ہی نگاہوں پہ بھروسہ نہ رہے گا
تم اتنا بدل جاؤگے سوچا ہی نہیں تھا

کندہ تھے مرے ذہن پہ کیوں اس کے خد و خال
چہرہ جو مری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں تھا