EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب اسے اپنی شباہت بھی گزرتی ہے گراں
گھر کے اندر کوئی شیشہ نہیں رہنے دیتا

محفوظ الرحمان عادل




بات تو جب ہے فصل جنوں میں دیوانے تو دیوانے
اہل خرد بھی رقص کریں زنجیروں کی جھنکاروں پر

محفوظ الرحمان عادل




بے لباسی مری توقیر کا باعث ٹھہری
بول بالا ہے بہت شہر میں عریانی کا

محفوظ الرحمان عادل




بھولی بسری داستاں مجھ کو نہ سمجھو
میں نئی پہچان کا اک واسطہ ہوں

محفوظ الرحمان عادل




دیکھ لینا ایک دن بے روزگاری کا عذاب
چھین کر چہروں کی ساری دل کشی لے جائے گا

محفوظ الرحمان عادل




ایک دن وہ ذروں کو آفتاب کر لیں گے
دھوپ کے جو خواہاں ہیں رات کے اندھیرے میں

محفوظ الرحمان عادل




ہمیشہ دھوپ کی چادر پہ تکیہ کون کرتا ہے
کھلی چھت ہے تو پھر برسات کا بھی سامنا ہوگا

محفوظ الرحمان عادل