EN हिंदी
گرچہ گل کی سیج ہو تس پر بھی اڑ جاتی ہے نیند | شیح شیری
garche gul ki sej ho tis par bhi uD jati hai nind

غزل

گرچہ گل کی سیج ہو تس پر بھی اڑ جاتی ہے نیند

ماہ لقا چنداؔ

;

گرچہ گل کی سیج ہو تس پر بھی اڑ جاتی ہے نیند
سر رکھوں قدموں پہ جب تیرے مجھے آتی ہے نیند

دیکھ سکتا ہی نہیں آنکھوں سے ٹک آنکھیں ملا
منتظر سے مثل نرگس تیرے شرماتی ہے نیند

جب سے یہ مژگاں ہوئے در پر ترے جاروب کش
روبرو تب سے مری آنکھوں کے ٹل جاتی ہے نیند

دھیان میں گل رو کے چین آتا نہیں افسانہ گر
لے صبا سے گاہ بوئے یار بہلاتی ہے نیند

اشک تو اتنے بہے چنداؔ کہ چشم خلق سے
قرۃالعین علیؓ کے غم میں بہہ جاتی ہے نیند