تیری یاد کا ہر منظر پس منظر لکھتا رہتا ہوں
دل کو ورق بناتا ہوں اور شب بھر لکھتا رہتا ہوں
بھری دوپہری سائے بناتا رہتا ہوں میں لفظوں سے
تاریکی میں بیٹھ کے ماہ منور لکھتا رہتا ہوں
خواب سجاتا رہتا ہوں میں بجھی بجھی سی آنکھوں میں
جس سے سب محروم ہیں اسے میسر لکھتا رہتا ہوں
چھانو نہ بانٹے پیڑ تو اپنی آتش میں جل جاتا ہے
صرف یہی اک بات میں اسے برابر لکھتا رہتا ہوں
کیا بتلاؤں پاشیؔ تم کو سنگ دلوں کی بستی میں
موتی سوچتا رہتا ہوں میں گوہر لکھتا رہتا ہوں
غزل
تیری یاد کا ہر منظر پس منظر لکھتا رہتا ہوں
کمار پاشی