جس کو آتے دیکھتا ہوں اے پری کہتا ہوں میں
آدمی بھیجا نہ ہو میرے بلانے کے لیے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
کاہیدہ مجھ کو دیکھ کے وہ غیرت پری
کہتا ہے آدمی ہو کہ مردم گیاہ ہو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
کہیں عدو نہ کہیں مجھ کو دیکھ کر محتاج
یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
خاک میں مل جائے وہ چشمہ نہ جس میں آب ہو
پھوٹ جائے آنکھ اگر موقوف رونا ہو گیا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
خود بہ خود اپنا جنازہ ہے رواں
ہم یہ کس کے کشتۂ رفتار ہیں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
کسی کو دیکھ کے ساقی جو بے حواس ہوا
شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
کوئے جاناں سے جو اٹھتا ہوں تو سو جاتے ہیں پاؤں
دفعتاً آنکھوں سے پاؤں میں اتر آتی ہے نیند
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

