کیا عجب لوگ تھے گزرے ہیں بڑی شان کے ساتھ
راستے چپ ہیں مگر نقش قدم بولتے ہیں
طارق قمر
ابھی باقی ہے بچھڑنا اس سے
نا مکمل یہ کہانی ہے ابھی
طارق قمر
کسی جواز کا ہونا ہی کیا ضروری ہے
اگر وہ چھوڑنا چاہے تو چھوڑ جائے مجھے
طارق قمر
کیسے رشتوں کو سمیٹیں یہ بکھرتے ہوئے لوگ
ٹوٹ جاتے ہیں یہی فیصلہ کرتے ہوئے لوگ
طارق قمر
جیسے ممکن ہو ان اشکوں کو بچاؤ طارقؔ
شام آئی تو چراغوں کی ضرورت ہوگی
طارق قمر
اس سلیقے سے مجھے قتل کیا ہے اس نے
اب بھی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ زندہ ہوں میں
طارق قمر
اس لہجے سے بات نہیں بن پائے گی
تلواروں سے کیسے کانٹے نکلیں گے
طارق قمر
ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا
یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم
طارق قمر
ایک مدت سے یہ منظر نہیں بدلا طارقؔ
وقت اس پار ہے ٹھہرا ہوا اس پار ہیں ہم
طارق قمر