چشم بینا! ترے بازار کا معیار ہیں ہم
دیکھ ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خریدار ہیں ہم
کیسے تاریخ فراموش کرے گی ہم کو
تیغ پر خون سے لکھا ہوا انکار ہیں ہم
تم جو کہتے ہو کہ باقی نہ رہے اہل دل
زخم بیچو گے چلو بیچو خریدار ہیں ہم
یوں ہی لہروں سے کبھی کھیلنے لگ جاتے ہیں
ایک غرقاب ہوئی ناؤ کی پتوار ہیں ہم
وہ بھی خوش ہے کہ اندھیرے میں پڑے رہتے ہیں
ہم بھی خوش ہیں کہ اجالے کے طرفدار ہیں ہم
انکساری نے عجب شان عطا کی ہم کو
اس قدر خم ہوئے لگنے لگا تلوار ہیں ہم
ایک مدت سے یہ منظر نہیں بدلا طارقؔ
وقت اس پار ہے ٹھہرا ہوا اس پار ہیں ہم
غزل
چشم بینا! ترے بازار کا معیار ہیں ہم
طارق قمر