خشک آنکھوں سے کہاں طے یہ مسافت ہوگی
دل کو سمجھایا تھا اشکوں کی ضرورت ہوگی
رنگ محلوں کے حسیں خواب سے بچ کر رہنا
ہے خبر گرم کہ خوابوں کی تجارت ہوگی
اپنے گھر خود ہی پشیمان سا لوٹ آیا ہوں
میں سمجھتا تھا اسے میری ضرورت ہوگی
میری تنہائی سکوں دینے لگی ہے مجھ کو
اس سے مت کہنا سنے گا تو ندامت ہوگی
خشک لب پیاس کی تصویر کے اندر رکھ دو
پیاس بجھ جائے گی دریا کو بھی حیرت ہوگی
سلسلہ جلتے چراغوں کا چلو ختم ہوا
تیرگی خوش ہے ہواؤں کو بھی راحت ہوگی
کب سحر پھوٹے گی کوئی ترے زندانوں سے
کب رہائی مری اے شہر اذیت ہوگی
جیسے ممکن ہو ان اشکوں کو بچاؤ طارقؔ
شام آئی تو چراغوں کی ضرورت ہوگی

غزل
خشک آنکھوں سے کہاں طے یہ مسافت ہوگی
طارق قمر