یہ آرزو تھی اسے آئنہ بناتے ہم
اور آئینے کی حفاظت میں ٹوٹ جاتے ہم
تمام عمر بھٹکتے رہے یہ کہتے ہوئے
کہ گھر بناتے سجاتے اسے بلاتے ہم
ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا
یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم
بگاڑے بیٹھے تھے تقدیر اپنے ہاتھوں سے
ہتھیلیوں کی لکیریں کسے دکھاتے ہم
خدا نے اتنا کرم اور کر دیا ہوتا
کہ جس نے زخم دیے اس کو بھول جاتے ہم
کچھ اس سبب سے بھی یہ زخم لا دوا ٹھہرے
ہر ایک شخص کا احساں نہیں اٹھاتے ہم
تو اپنے غم سے ہی خالی کہاں ہے اے طارقؔ
جو تیرے پاس کبھی آ کے بیٹھ جاتے ہم
غزل
یہ آرزو تھی اسے آئنہ بناتے ہم
طارق قمر