وہ میرے خواب کی تعبیر تو بتائے مجھے
میں دھوپ میں ہوں مگر ڈھونڈتے ہیں سائے مجھے
میں روشنی کی کسی سلطنت کا شہزادہ
مگر چراغ ملے ہیں بجھے بجھائے مجھے
وہ جا چکا ہے تو نقش قدم بھی مٹ جائیں
بچھڑ گیا ہے تو اب یاد بھی نہ آئے مجھے
کسی جواز کا ہونا ہی کیا ضروری ہے
اگر وہ چھوڑنا چاہے تو چھوڑ جائے مجھے
تو موتیوں میں نہ تلنے کا رنج ختم ہوا
کسی کی آنکھ کے آنسو خرید لائے مجھے
لرزتے کانپتے ہاتھوں کو پھر نہ ہو زحمت
خدا کرے کہ یہی زہر راس آئے مجھے
میں چاہتا ہوں کبھی یوں بھی ہو کہ میری طرح
وہ مجھ کو ڈھونڈنے نکلے مگر نہ پائے مجھے
غزل
وہ میرے خواب کی تعبیر تو بتائے مجھے
طارق قمر