دیکھیں کتنے چاہنے والے نکلیں گے
اب کے ہم بھی بھیس بدل کے نکلیں گے
چاہے جتنا شہد پلا دو شاخوں کو
نیم کے پتے پھر بھی کڑوے نکلیں گے
پیر کے چھالے پوچھ رہے ہیں رہبر سے
اک رستے سے کتنے رستے نکلیں گے
اس لہجے سے بات نہیں بن پائے گی
تلواروں سے کیسے کانٹے نکلیں گے
تخت چھنے گا دربانوں کی سازش سے
اور لٹیرے تاج پہن کے نکلیں گے
اک آئینہ کتنی شکلیں دیکھے گا
مکاری کے کتنے چہرے نکلیں گے
گرد و پیش کو تھوڑا روشن ہونے دو
میری گھات میں میرے سائے نکلیں گے
طارقؔ تیری قسمت میں ہی پیار نہیں
اس بیری کے بیر بھی کھٹے نکلیں گے
غزل
دیکھیں کتنے چاہنے والے نکلیں گے
طارق قمر