EN हिंदी
سارے زخموں کو زباں مل گئی غم بولتے ہیں | شیح شیری
sare zaKHmon ko zaban mil gai gham bolte hain

غزل

سارے زخموں کو زباں مل گئی غم بولتے ہیں

طارق قمر

;

سارے زخموں کو زباں مل گئی غم بولتے ہیں
ہم مگر ظرف سے مجبور ہیں کم بولتے ہیں

کس قدر توڑ دیا ہے اسے خاموشی نے
کوئی بولے وہ سمجھتا ہے کہ ہم بولتے ہیں

کیا عجب لوگ تھے گزرے ہیں بڑی شان کے ساتھ
راستے چپ ہیں مگر نقش قدم بولتے ہیں

وقت وہ ہے کہ خدا خیر، بہ نام ایماں
دیر والوں کی زباں اہل حرم بولتے ہیں

کہتے ہیں ظرف کا سودا نہیں کرتے ہم لوگ
کس قدر جھوٹ یہ سب اہل قلم بولتے ہیں

کہیں رہتے ہیں در و بام ندامت سے خموش
بکھری اینٹوں میں کہیں جاہ و حشم بولتے ہیں

بات بھی کرتے ہیں احسان جتانے کی طرح
کیسے لہجے میں یہ اب اہل کرم بولتے ہیں

کون یہ پرسش احوال کو آیا طارقؔ
لب ہیں خاموش مگر دیدۂ نم بولتے ہیں