EN हिंदी
ایک تصویر جلانی ہے ابھی | شیح شیری
ek taswir jalani hai abhi

غزل

ایک تصویر جلانی ہے ابھی

طارق قمر

;

ایک تصویر جلانی ہے ابھی
ہاں مگر آنکھ میں پانی ہے ابھی

اس نے جب ہاتھ ملایا تو لگا
دل میں اک پھانس پرانی ہے ابھی

ابھی باقی ہے بچھڑنا اس سے
نا مکمل یہ کہانی ہے ابھی

اے ہوا ایسی بھی عجلت کیا ہے؟
کیا کہیں آگ لگانی ہے ابھی

راستہ روک رہی ہے اک یاد
یہ بھی دیوار گرانی ہے ابھی

یہ جو پتھر ہیں انہیں ٹوٹنا ہے
میرے اشکوں میں روانی ہے ابھی

وقت یہ پوچھ رہا ہے طارقؔ
گرد کچھ اور اڑانی ہے ابھی؟