ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا
میں جو شہید ہوں لب خندان یار کا
کیا کیا چراغ ہنستا ہے میرے مزار کا
ہو راز دل نہ یار سے پوشیدہ یار کا
پردہ نہ درمیاں ہو جو دل کے غبار کا
اس روئے تابناک پہ ہر قطرۂ عرق
گویا کہ اک ستارہ ہے صبح بہار کا
ہے عین وصل میں بھی مری چشم سوئے در
لپکا جو پڑ گیا ہے مجھے انتظار کا
پہنچے گا تیرے پاس کبوتر سے پیشتر
مکتوب شوق اڑا کے ترے بے قرار کا
ہو پاک دامنوں کو خلش گر سے کیا خطر
کھٹکا نہیں نگاہ کو مژگاں کے خار کا
بجھنے کی دل کی آگ نہیں زیر خاک بھی
ہوگا درخت گور پہ میری چنار کا
دیکھ اپنے در گوش کو عارض سے متصل
دیکھا نہ ہو ستارہ جو صبح بہار کا
پوچھے ہے کیا حلاوت تلخابۂ سرشک
شربت ہے باغ خلد بریں کے انار کا
ہے دل کی داؤ گھات میں مژگاں سے چشم یار
ہے شوق اس کی ٹٹی کی اوجھل شکار کا
قاصد لکھوں لفافۂ خط کو غبار سے
تا جانے وہ یہ خط ہے کسی خاکسار کا
اے ذوقؔ ہوش گر ہے تو دنیا سے دور بھاگ
اس مے کدے میں کام نہیں ہوشیار کا
غزل
ہنگامہ گرم ہستئ نا پائیدار کا
شیخ ابراہیم ذوقؔ