ہم کبیرؔ اس کال کے کھڑے ہیں خالی ہاتھ
سنگ کسی کے ہم نہیں اور ہم سب کے ساتھ
شین کاف نظام
گلی کے موڑ سے گھر تک اندھیرا کیوں ہے نظامؔ
چراغ یاد کا اس نے بجھا دیا ہوگا
شین کاف نظام
ایک آسیب ہے ہر اک گھر میں
ایک ہی چہرہ در بدر چمکے
شین کاف نظام
دوستی عشق اور وفاداری
سخت جاں میں بھی نرم گوشے ہیں
شین کاف نظام
دھول اڑتی ہے دھوپ بیٹھی ہے
اوس نے آنسوؤں کا گھر چھوڑا
شین کاف نظام
دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے
بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے
شین کاف نظام
چبھن یہ پیٹھ میں کیسی ہے مڑ کے دیکھ تو لے
کہیں کوئی تجھے پیچھے سے دیکھتا ہوگا
شین کاف نظام
بیچ کا بڑھتا ہوا ہر فاصلہ لے جائے گا
ایک طوفاں آئے گا سب کچھ بہا لے جائے گا
شین کاف نظام
برسوں سے گھومتا ہے اسی طرح رات دن
لیکن زمین ملتی نہیں آسمان کو
شین کاف نظام