چھین کر وہ لذت صوت و صدا لے جائے گا
ہاتھ شل کر جائے گا حرف دعا لے جائے گا
بیچ کا بڑھتا ہوا ہر فاصلہ لے جائے گا
ایک طوفاں آئے گا سب کچھ بہا لے جائے گا
دیکھنا بڑھتا ہوا یہ خواہشوں کا سلسلہ
موج خوں دکھلائے گا رنگ حنا لے جائے گا
بے مقدر چھوڑ جائے گا سبھی پیشانیاں
روشنی آنکھوں کی سینے کی ضیا لے جائے گا
گھر سے جاتے وقت وہ اب کے بزرگوں کی دعا
لے تو جائے گا مگر ڈرتا ہوا لے جائے گا
لمس میں مل جائے گا آواز کا اسرار بھی
پانیوں کے پیکروں کو بھی اٹھا لے جائے گا
اک پرندہ رات کی چوکھٹ پہ آئے گا نظامؔ
دیکھنا ہے دے گا کیا اور ہم سے کیا لے جائے گا
غزل
چھین کر وہ لذت صوت و صدا لے جائے گا
شین کاف نظام