EN हिंदी
ریت پر جتنے بھی نوشتے ہیں | شیح شیری
rit par jitne bhi nawishte hain

غزل

ریت پر جتنے بھی نوشتے ہیں

شین کاف نظام

;

ریت پر جتنے بھی نوشتے ہیں
اپنے ماحول کے مجلے ہیں

کون جانے کہاں دفینے ہیں
اپنے تو پاس صرف نقشے ہیں

صورتیں چھین لے گیا کوئی
اس برس آئینے اکیلے ہیں

خواب خوشبو، خیال، اور خدشے
ایک دیوار سو دریچے ہیں

دوستی عشق اور وفاداری
سخت جاں میں بھی نرم گوشے ہیں

پڑھ سکو تو کبھی پڑھو ان کو
شاخ در شاخ بھی صحیفے ہیں

جگنوؤں کے پروں سے لکھے ہوئے
جنگلوں میں کئی جریدے ہیں