دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے
بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے
آنکھوں کو عطا خواب کئے شکریہ لیکن
پیکر بھی کوئی خوابوں میں ڈھلنے کے لیے دے
پانی کا ہی پیکر کسی پربت کو عطا کر
اک بوند ہی ندی کو اچھلنے کے لیے دے
سہمی ہوئی شاخوں کو ذرا سی کوئی مہلت
سورج کی سواری کو نگلنے کے لیے دے
سب وقت کی دیوار سے سر پھوڑ رہے ہیں
روزن ہی کوئی بھاگ نکلنے کے لیے دے
سیلاب میں ساعت کے مجھے پھینکنے والے
ٹوٹا ہوا اک پل ہی سنبھلنے کے لیے دے
محفوظ جو ترتیب عناصر سے ہیں اسرار
تو خول کو اک آنچ پگھلنے کے لیے دے
تخئیل کو تخلیق کی توفیق عطا کر
پھر پہلو سے اک چیز نکلنے کے لیے دے

غزل
دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے
شین کاف نظام