EN हिंदी
دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے | شیح شیری
darwaza koi ghar se nikalne ke liye de

غزل

دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے

شین کاف نظام

;

دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے
بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے

آنکھوں کو عطا خواب کئے شکریہ لیکن
پیکر بھی کوئی خوابوں میں ڈھلنے کے لیے دے

پانی کا ہی پیکر کسی پربت کو عطا کر
اک بوند ہی ندی کو اچھلنے کے لیے دے

سہمی ہوئی شاخوں کو ذرا سی کوئی مہلت
سورج کی سواری کو نگلنے کے لیے دے

سب وقت کی دیوار سے سر پھوڑ رہے ہیں
روزن ہی کوئی بھاگ نکلنے کے لیے دے

سیلاب میں ساعت کے مجھے پھینکنے والے
ٹوٹا ہوا اک پل ہی سنبھلنے کے لیے دے

محفوظ جو ترتیب عناصر سے ہیں اسرار
تو خول کو اک آنچ پگھلنے کے لیے دے

تخئیل کو تخلیق کی توفیق عطا کر
پھر پہلو سے اک چیز نکلنے کے لیے دے