اک سائیں سائیں گھیرے ہے گرتے مکان کو
اور آنکھیں تاکتی ہیں چمکتی چٹان کو
چڑھتے ہی میرے ہو گئی دیوار سے الگ
حسرت سے دیکھتا ہوں اسی نردباں کو
اندیشے دور دور کے نزدیک کا سفر
کشتی کو دیکھتا ہوں کبھی بادبان کو
زندان روز و شب میں ہے ہم سب کو عمر قید
کوئی بچائے آ کے مرے خاندان کو
یادوں کے شور و غل میں کھڑی گھر کی خاموشی
آواز دے رہی ہے کسی مہربان کو
برسوں سے گھومتا ہے اسی طرح رات دن
لیکن زمین ملتی نہیں آسمان کو
غزل
اک سائیں سائیں گھیرے ہے گرتے مکان کو
شین کاف نظام