پاؤں میں دور کا سفر چمکے
رات بستی میں جب کھنڈر چمکے
گر دعا ہے تو پھر اثر چمکے
شاخ پر ایک تو ثمر چمکے
ایک آسیب ہے ہر اک گھر میں
ایک ہی چہرہ در بدر چمکے
ظلمتوں کی زمین پر دیکھیں
کس طرح نور کا نگر چمکے
ان چمکتے ہوئے اندھیروں میں
ایک تو حرف معتبر چمکے
روشنی ہو تو روح تک لرزے
اور اندھیرے میں ایک ڈر چمکے
ساحلوں کی شفیق آنکھوں میں
دھوپ کپڑے اتار کر چمکے
غزل
پاؤں میں دور کا سفر چمکے
شین کاف نظام