وہ دن بھی تھے کہ ان آنکھوں میں اتنی حیرت تھی
تمام بازی گروں کو مری ضرورت تھی
وہ بات سوچ کے میں جس کو مدتوں جیتا
بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی
پتا نہیں یہ تمنائے قرب کب جاگی
مجھے تو صرف اسے سوچنے کی عادت تھی
خموشیوں نے پریشاں کیا تو ہوگا مگر
پکارنے کی یہی صرف ایک صورت تھی
گئے بھی جان سے اور کوئی مطمئن نہ ہوا
کہ پھر دفاع نہ کرنے کی ہم پہ تہمت تھی
کہیں پہ چوک رہے ہیں یہ آئینے شاید
نہیں تو عکس میں اب تک مری شباہت تھی
غزل
وہ دن بھی تھے کہ ان آنکھوں میں اتنی حیرت تھی
شارق کیفی