EN हिंदी
لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی | شیح شیری
log sah lete the hans kar kabhi be-zari bhi

غزل

لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی

شارق کیفی

;

لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی
اب تو مشکوک ہوئی اپنی ملن ساری بھی

وار کچھ خالی گئے میرے تو پھر آ ہی گئی
اپنے دشمن کو دعا دینے کی ہشیاری بھی

عمر بھر کس نے بھلا غور سے دیکھا تھا مجھے
وقت کم ہو تو سجا دیتی ہے بیماری بھی

کس طرح آئے ہیں اس پہلی ملاقات تلک
اور مکمل ہے جدا ہونے کی تیاری بھی

اوب جاتا ہوں ذہانت کی نمائش سے تو پھر
لطف دیتا ہے یہ لہجہ مجھے بازاری بھی

عمر بڑھتی ہے مگر ہم وہیں ٹھہرے ہوئے ہیں
ٹھوکریں کھائیں تو کچھ آئے سمجھ داری بھی

اب جو کردار مجھے کرنا ہے مشکل ہے بہت
مست ہونے کا دکھاوا بھی ہے سر بھاری بھی