قسم اس آگ اور پانی کی
موت اچھی ہے بس جوانی کی
اور بھی ہیں روایتیں لیکن
اک روایت ہے خوں فشانی کی
جسے انجام تم سمجھتی ہو
ابتدا ہے کسی کہانی کی
رنج کی ریت ہے کناروں پر
موج گزری تھی شادمانی کی
چوم لیں میری انگلیاں ثروتؔ
اس نے اتنی تو مہربانی کی

غزل
قسم اس آگ اور پانی کی
ثروت حسین