پتھروں میں آئنا موجود ہے
یعنی مجھ میں دوسرا موجود ہے
زمزمہ پیرا کوئی تو ہے یہاں
صحن گلشن میں ہوا موجود ہے
خواب ہو کر رہ گیا اپنے لیے
جاگ اٹھنے کی سزا موجود ہے
اک سمندر ہے دل عشاق میں
جس میں ہر موج بلا موجود ہے
آسمانی گھنٹیوں کے شور میں
اس بدن کی ہر صدا موجود ہے
میں کتاب خاک کھولوں تو کھلے
کیا نہیں موجود کیا موجود ہے
جنت ارضی بلاتی ہے تمہیں
آؤ ثروتؔ راستہ موجود ہے
غزل
پتھروں میں آئنا موجود ہے
ثروت حسین