فرات فاصلہ سے دجلۂ دعا سے ادھر
کوئی پکارتا ہے دشت نینوا سے ادھر
کسی کی نیم نگاہی کا جل رہا ہے چراغ
نگار خانۂ آغاز و انتہا سے ادھر
میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے
بلا کا رنگ تھا رنگینیٔ قبا سے ادھر
میں راکھ ہو گیا طاؤس رنگ کو چھو کر
عجیب رقص تھا دیوار پیش پا سے ادھر
زمین میرے لیے پھول لے کے آتی ہے
بساط معرکۂ صبر آزما سے ادھر
یہ میرے ہونٹ سمندر کو چوم سکتے ہیں
حکایت شب افراد و آئینہ سے ادھر
غزل
فرات فاصلہ سے دجلۂ دعا سے ادھر
ثروت حسین