گفتگو ہو دبی زبان بہت
ہیں لگائے رقیب کان بہت
کیوں نہ گردش اٹھائے جان بہت
ایک میں اور آسمان بہت
گالیوں کی روش کو کم کیجے
آپ کی چلتی ہے زبان بہت
دل کلیجہ دماغ سینہ و چشم
ان کے رہنے کے ہیں مکان بہت
ماہ سا رخ سخیؔ کو دکھلایا
آج تو تھے وہ مہربان بہت
غزل
گفتگو ہو دبی زبان بہت
سخی لکھنوی