منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں
گھر سے واعظ کہیں فاضل تو نہیں
تم نہ آسان کو آساں سمجھو
ورنہ مشکل مری مشکل تو نہیں
کیا سنبھالے میرے دل کا لنگر
زلف ہے کچھ وہ سلاسل تو نہیں
آج میں دل کو جدا کرتا ہوں
دیکھیے آپ کے قابل تو نہیں
زلزلہ میں جو زمیں آتی ہے
یہ بھی اس شوخ پہ بسمل تو نہیں
درد کو گردہ تڑپنے کو جگر
ہجر میں سب ہیں مگر دل تو نہیں
ہڈیاں کھانے کو کھاتا ہے ہما
سگ جاناں کے مقابل تو نہیں
بولا وہ گل جو سنی آہ سخیؔ
ایسی آواز عنادل تو نہیں
غزل
منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں
سخی لکھنوی