ہے چمن میں رحم گلچیں کو نہ کچھ صیاد کو
اب خدا ہی شاد رکھے بلبل ناشاد کو
سوجھتی تھی کوہ و صحرا میں یہی ہر دم مجھے
کیجئے غم قیس کا اور روئیے فرہاد کو
ہچکیاں آتی ہیں پر لیتے نہیں وہ میرا نام
دیکھنا ان کی فراموشی کو میری یاد کو
یاد میں ان کے حواس خمسہ دے دیتے ہیں ہم
آہ کو نالہ کو غل کو شور کو فریاد کو
جائے گی گلشن تلک اس گل کی آمد کی خبر
آئے گی بلبل مرے گھر میں مبارک باد کو
نزع کے دم بھی انہیں ہچکی نہ آئے گی کبھی
یوں ہی گر بھولے رہیں گے وہ سخیؔ کی یاد کو
غزل
ہے چمن میں رحم گلچیں کو نہ کچھ صیاد کو
سخی لکھنوی