EN हिंदी
ساحل احمد شیاری | شیح شیری

ساحل احمد شیر

10 شیر

آج کنواں بھی چیخ اٹھا ہے
کسی نے پتھر مارا ہوگا

ساحل احمد




اب کے وہ ایسے سفر پر کیا گئے
پھر دوبارہ لوٹ کر آئے نہیں

ساحل احمد




بکری ''میں میں'' کرتی ہے
بکرا زور لگاتا ہے

ساحل احمد




کل تلک صحرا بسا تھا آنکھ میں
اب مگر کس نے سمندر رکھ دیا

ساحل احمد




کس تصور کے تحت ربط کی منزل میں رہا
کس وسیلے کے تأثر کا نگہبان تھا میں

ساحل احمد




کیوں چمک اٹھتی ہے بجلی بار بار
اے ستم گر لے نہ انگڑائی بہت

ساحل احمد




مکڑیوں نے جب کہیں جالا تنا
مکھیوں نے شور برپا کر دیا

ساحل احمد




رو پڑیں آنکھیں بہت ساحلؔ مری
جب کسی نے ہاتھ سر پر رکھ دیا

ساحل احمد




شیر گپھا سے نکلے گا
شور مچے گا جنگل میں

ساحل احمد