EN हिंदी
چیختی گاتی ہوا کا شور تھا | شیح شیری
chiKHti gati hawa ka shor tha

غزل

چیختی گاتی ہوا کا شور تھا

ساحل احمد

;

چیختی گاتی ہوا کا شور تھا
جسم تنہا جانے کیا سوچا کیا

مکڑیوں نے جب کہیں جالا تنا
مکھیوں نے شور برپا کر دیا

وہ خوشی کے راستے کا موڑ تھا
میں بگولہ بن کے رستہ کھوجتا

میں درختوں سے خوشی کا راستہ
جنگلوں میں اب چلوں گا پوچھتا

اپنے ہاتھوں سے ستارے توڑ کر
میں جلاؤں گا گھٹاؤں میں دیا

ہر طرف تو اڑ رہی ہے دھول سی
آنکھ اپنی میں کہاں تک موندتا