چیختی گاتی ہوا کا شور تھا
جسم تنہا جانے کیا سوچا کیا
مکڑیوں نے جب کہیں جالا تنا
مکھیوں نے شور برپا کر دیا
وہ خوشی کے راستے کا موڑ تھا
میں بگولہ بن کے رستہ کھوجتا
میں درختوں سے خوشی کا راستہ
جنگلوں میں اب چلوں گا پوچھتا
اپنے ہاتھوں سے ستارے توڑ کر
میں جلاؤں گا گھٹاؤں میں دیا
ہر طرف تو اڑ رہی ہے دھول سی
آنکھ اپنی میں کہاں تک موندتا
غزل
چیختی گاتی ہوا کا شور تھا
ساحل احمد