EN हिंदी
نوع بہ نوع ایک امڈتا ہوا طوفان تھا میں | شیح شیری
nau-ba-nau ek umaDta hua tufan tha main

غزل

نوع بہ نوع ایک امڈتا ہوا طوفان تھا میں

ساحل احمد

;

نوع بہ نوع ایک امڈتا ہوا طوفان تھا میں
بہتے دریا کے لیے اک یہی پہچان تھا میں

میں کسی نقطۂ بے لفظ کا اظہار نہیں
ہاں کبھی حرف انا وقت کا عرفان تھا میں

دیتی تھی ذوق نظر مجھ کو گنہ کی ترغیب
یوں فرشتہ تو نہ تھا ہاں مگر انسان تھا میں

ان سے اے دوست مرا یوں کوئی رشتہ تو نہ تھا
کیوں پھر اس ترک تعلق سے پشیمان تھا میں

کس تصور کے تحت ربط کی منزل میں رہا
کس وسیلے کے تأثر کا نگہبان تھا میں

پھر پس لفظ یہی بات اٹھی تھی کل شب
بکھرے لفظوں کے لیے باعث ہیجان تھا میں

اس کہانی میں کوئی ربط و تسلسل بھی نہیں
کیوں کہ اس زیست کا ساحل یہی عنوان تھا میں