آنکھ سے آنسو ٹپکا ہوگا
صبح کا تارا ٹوٹا ہوگا
پھیل گئی ہے نور کی چادر
رخ سے آنچل سرکا ہوگا
پھیل گئے ہیں رات کے سائے
آنکھ سے کاجل ڈھلکا ہوگا
بکھری پتی دیکھ کے گل کی
کلیوں نے کیا کیا سوچا ہوگا
دیکھ مسافر بھوت نہیں ہے
راہ کا پتہ کھڑکا ہوگا
عارض گل پہ دیکھ کے شبنم
کلیوں نے منہ دھویا ہوگا
چپ چپ رہنا ٹھیک نہیں ہے
بات بڑھے گی چرچا ہوگا
گھوم رہے ہیں شہروں شہروں
کوئی تو آخر تم سا ہوگا
آج کنواں بھی چیخ اٹھا ہے
کسی نے پتھر مارا ہوگا
پھیل گئی ہے پیار کی خوشبو
کوئی پتنگا جلتا ہوگا
مجھ سے ناطہ توڑ کے ساحل
وہ بھی اب پچھتاتا ہوگا
غزل
آنکھ سے آنسو ٹپکا ہوگا
ساحل احمد