دھوپ تھی سایہ اٹھا کر رکھ دیا
یہ سجا تاروں کا محضر رکھ دیا
کل تلک صحرا بسا تھا آنکھ میں
اب مگر کس نے سمندر رکھ دیا
سرخ رو ہوتی ہے کیسی زندگی
دوستوں نے لا کے پتھر رکھ دیا
مندمل زخموں کے ٹانکے کھل گئے
بے سبب تم نے رلا کر رکھ دیا
ثابت و سالم تھا دامن کل تلک
تم نے آخر کیوں جلا کر رکھ دیا
مٹ گئی تشنہ لبی آخر مری
جب گلے پر اس نے خنجر رکھ دیا
رو پڑیں آنکھیں بہت ساحلؔ مری
جب کسی نے ہاتھ سر پر رکھ دیا
غزل
دھوپ تھی سایہ اٹھا کر رکھ دیا
ساحل احمد