نقش ڈرے گا جنگل میں
سانپ ملے گا جنگل میں
وحشی جلتی انگلی سے
پیڑ گنے گا جنگل میں
ٹوٹ کے سایہ پیڑوں سے
رقص کرے گا جنگل میں
خود رو پودے آنسو کے
پھول کھلے گا جنگل میں
چلتا پھرتا سایہ بھی
اب نہ ملے گا جنگل میں
شیر گپھا سے نکلے گا
شور مچے گا جنگل میں
نخل مروت کٹتے ہی
شہر اگے گا جنگل میں
بیر نہ کرنا مٹی سے
قرض اگے گا جنگل میں
بوڑھا طوطا کس کس کو
یاد کرے گا جنگل میں
غزل
نقش ڈرے گا جنگل میں
ساحل احمد