کیا پرندے لوٹ کر آئے نہیں
وہ کسی آواز پر آئے نہیں
شام سے ہی فکر گہری ہو گئی
شہر سے جب لوگ گھر آئے نہیں
سونے سونے ہی کھڑے ہیں سب شجر
اب تلک تو کچھ ثمر آئے نہیں
اب کے وہ ایسے سفر پر کیا گئے
پھر دوبارہ لوٹ کر آئے نہیں
اڑ گئے طائر بلاتا میں رہا
وہ مری دیوار پر آئے نہیں
غزل
کیا پرندے لوٹ کر آئے نہیں
ساحل احمد