عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل
کہ وہ بھی اٹھ کے گیا جس کا گھر نہ تھا کوئی
سحر انصاری
دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز
محبتیں تو گئیں تھی عداوتیں بھی گئیں
سحر انصاری
ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز
یہی بے رنگ سی دنیا یہی بے مہر سے لوگ
سحر انصاری
جانے کیوں رنگ بغاوت نہیں چھپنے پاتا
ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں
سحر انصاری
جسے گزار گئے ہم بڑے ہنر کے ساتھ
وہ زندگی تھی ہماری ہنر نہ تھا کوئی
سحر انصاری
کیسی کیسی محفلیں سونی ہوئیں
پھر بھی دنیا کس قدر آباد ہے
سحر انصاری
محفل آرائی ہماری نہیں افراط کا نام
کوئی ہو یا کہ نہ ہو آپ تو آئے ہوئے ہیں
سحر انصاری
موت کے بعد زیست کی بحث میں مبتلا تھے لوگ
ہم تو سحرؔ گزر گئے تہمت زندگی اٹھائے
سحر انصاری
مرے لہو کو مری خاک ناگزیر کو دیکھ
یونہی سلیقۂ عرض ہنر نہیں آیا
سحر انصاری