راستوں میں اک نگر آباد ہے
اس تصور ہی سے گھر آباد ہے
کیسی کیسی صورتیں گم ہو گئیں
دل کسی صورت مگر آباد ہے
کیسی کیسی محفلیں سونی ہوئیں
پھر بھی دنیا کس قدر آباد ہے
زندگی پاگل ہوا کے ساتھ ساتھ
مثل خاک رہ گزر آباد ہے
دشت و صحرا ہو چکے قدموں کی گرد
شہر اب تک دوش پر آباد ہے
بے خودی رسوا تو کیا کرتی مجھے
مجھ میں کوئی بے خبر آباد ہے
دھوپ بھی سنولا گئی ہے جس جگہ
اس خرابے میں سحر آباد ہے
غزل
راستوں میں اک نگر آباد ہے
سحر انصاری