کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی
یہ بات جب کی ہے جب چارہ گر نہ تھا کوئی
کسی سے رنگ افق ہی کی بات کر لیتے
اب اس قدر بھی یہاں معتبر نہ تھا کوئی
بنائے جاؤں کسی اور کے بھی نقش قدم
یہ کیوں کہوں کہ مرا ہم سفر نہ تھا کوئی
گزر گئے ترے کوچے سے اجنبی کی طرح
کہ ہم سے سلسلۂ بام و در نہ تھا کوئی
جسے گزار گئے ہم بڑے ہنر کے ساتھ
وہ زندگی تھی ہماری ہنر نہ تھا کوئی
عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل
کہ اٹھ کے وہ بھی چلا جس کا گھر نہ تھا کوئی
ہجوم شہر میں شامل رہا اور اس کے بعد
سحرؔ ادھر بھی گیا میں جدھر نہ تھا کوئی
غزل
کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی
سحر انصاری