نہ اب وہ شدت آوارگی نہ وحشت دل
ہمارے نام کی کچھ اور شہرتیں بھی گئیں
سحر انصاری
صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں
سحر انصاری
شاید کہ وہ واقف نہیں آداب سفر سے
پانی میں جو قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا تھا
سحر انصاری
شکوۂ تلخئ حالات بجا ہے لیکن
اس پہ روتا ہوں کہ میں نے بھی رلایا ہے تجھے
سحر انصاری
تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ
سحر انصاری
تری آرزو سے بھی کیوں نہیں غم زندگی میں کوئی کمی
یہ سوال وہ ہے کہ جس کا اب کوئی اک جواب نہیں رہا
سحر انصاری
یہ مرنا جینا بھی شاید مجبوری کی دو لہریں ہیں
کچھ سوچ کے مرنا چاہا تھا کچھ سوچ کے جینا چاہا ہے
سحر انصاری