کہیں وہ چہرۂ زیبا نظر نہیں آیا
گیا وہ شخص تو پھر لوٹ کر نہیں آیا
کہوں تو کس سے کہوں آ کے اب سر منزل
سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا
میں وہ مسافر دشت غم محبت ہوں
جو گھر پہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا
صبا نے فاش کیا راز بوئے گیسوئے یار
یہ جرم اہل تمنا کے سر نہیں آیا
کبھی کوئی ترے وعدوں کا تذکرہ چھیڑے
تو کیا کہوں کہ کوئی نامہ بر نہیں آیا
پھر ایک خواب وفا بھر رہا ہے آنکھوں میں
یہ رنگ ہجر کی شب جاگ کر نہیں آیا
مرے لہو کو مری خاک ناگزیر کو دیکھ
یونہی سلیقۂ عرض ہنر نہیں آیا
نہ جانے ضبط کے ہاتھوں سحرؔ پہ کیا گزری
بہت دنوں سے وہ آشفتہ سر نہیں آیا
غزل
کہیں وہ چہرۂ زیبا نظر نہیں آیا
سحر انصاری