اب یہی رنج بے دلی مجھ کو مٹائے یا بنائے
لاکھ وہ مہرباں سہی اس کی طرف بھی کون جائے
روٹھے ہوئے وجود بھی درد انا سے کم نہیں
کیوں میں کسی کے ناز اٹھاؤں مجھ کو بھی کوئی کیوں منائے
سایۂ قرب میں ملیں آ وہی دونوں وقت پھر
ہونٹ پہ صبح جگمگائے آنکھ میں شام مسکرائے
دن کو دیار دید میں وسعت لمس سے گریز
شب کو حصار چشم میں خود ہی مثل خواب آئے
ختم ہیں واقعات بھی زیست کی واردات بھی
اب وہ جھکی جھکی نظر خود کوئی داستاں سنائے
مونس خلوت وفا آج بھی ہے وہ دل کہ جو
شمع کی لو میں تھرتھرائے چاند کے ساتھ ڈوب جائے
موت کے بعد زیست کی بحث میں مبتلا تھے لوگ
ہم تو سحرؔ گزر گئے تہمت زندگی اٹھائے
غزل
اب یہی رنج بے دلی مجھ کو مٹائے یا بنائے
سحر انصاری