EN हिंदी
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو | شیح شیری
wo bulaen to kya tamasha ho

غزل

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو

ساغر صدیقی

;

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو

یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو

تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو

وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو