کیوں سدا پہنے وہ تیرا ہی پسندیدہ لباس
کچھ تو موسم کے مطابق بھی سنورنا ہے اسے
صدا انبالوی
اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے
سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے
صدا انبالوی
اک نہ اک روز رفاقت میں بدل جائے گی
دشمنی کو بھی سلیقے سے نبھاتے جاؤ
صدا انبالوی
ہمیں نہ راس زمانے کی محفلیں آئی
چلو کہ چھوڑ کے اب اس جہاں کو چلتے ہیں
صدا انبالوی
دل کو سمجھا لیں ابھی سے تو مناسب ہوگا
اک نہ اک روز تو وعدے سے مکرنا ہے اسے
صدا انبالوی
دل جلاؤ یا دیئے آنکھوں کے دروازے پر
وقت سے پہلے تو آتے نہیں آنے والے
صدا انبالوی
دے گیا خوب سزا مجھ کو کوئی کر کے معاف
سر جھکا ایسے کہ تا عمر اٹھایا نہ گیا
صدا انبالوی
چلو کہ ہم بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہیں
نہیں بدلتا زمانہ تو ہم بدلتے ہیں
صدا انبالوی
بڑا گھاٹے کا سودا ہے صداؔ یہ سانس لینا بھی
بڑھے ہے عمر جیوں جیوں زندگی کم ہوتی جاتی ہے
صدا انبالوی