طبیعت رفتہ رفتہ خوگر غم ہوتی جاتی ہے
وہی رنج و الم ہے پر خلش کم ہوتی جاتی ہے
خوشی کا وقت ہے اور آنکھ پر نم ہوتی جاتی ہے
کھلی ہے دھوپ اور بارش بھی چھم چھم ہوتی جاتی ہے
اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو
بصیرت آدمی کی کچھ مگر کم ہوتی جاتی ہے
کریں سجدہ کسی بت کو گوارہ تھا کسے لیکن
جبیں کو کیا کریں جو خود بہ خود خم ہوتی جاتی ہے
تجھے ہے فکر میری مجھ سے بڑھ کر اے مرے مولا
مجھے درکار ہے جو شے فراہم ہوتی جاتی ہے
اٹھی کیا اک نگاہ لطف پھر اپنی طرف یارو
کہ ہر ٹوٹی ہوئی امید قائم ہوتی جاتی ہے
بڑا گھاٹے کا سودا ہے صداؔ یہ سانس لینا بھی
بڑھے ہے عمر جیوں جیوں زندگی کم ہوتی جاتی ہے
غزل
طبیعت رفتہ رفتہ خوگر غم ہوتی جاتی ہے
صدا انبالوی