چلچلاتی دھوپ تھی لیکن تھا سایہ ہم قدم
سائباں کی چھاؤں نے مجھ کو اکیلا کر دیا
صابر
فصل بوئی بھی ہم نے کاٹی بھی
اب نہ کہنا زمین بنجر ہے
صابر
ہنس ہنس کے اس سے باتیں کیے جا رہے ہو تم
صابرؔ وہ دل میں اور ہی کچھ سوچتا نہ ہو
صابر
ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی
فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہو گئی ہے
صابر
مجھ سے کل محفل میں اس نے مسکرا کر بات کی
وہ مرا ہو ہی نہیں سکتا یہ پکا کر دیا
صابر
رکھے رکھے ہو گئے پرانے تمام رشتے
کہاں کسی اجنبی سے رشتہ نیا بنائیں
صابر
سارے منظر حسین لگتے ہیں
دوریاں کم نہ ہوں تو بہتر ہے
صابر
سبھی مسافر چلیں اگر ایک رخ تو کیا ہے مزا سفر کا
تم اپنے امکاں تلاش کر لو مجھے پرندے پکارتے ہیں
صابر
سینت کر ایمان کچھ دن اور رکھنا ہے ابھی
آج کل بازار میں مندی ہے سستا ہے ابھی
صابر