EN हिंदी
صابر شیاری | شیح شیری

صابر شیر

14 شیر

ترے تصور کی دھوپ اوڑھے کھڑا ہوں چھت پر
مرے لیے سردیوں کا موسم ذرا الگ ہے

صابر




اس کے شر سے میں سدا مانگتا رہتا ہوں پناہ
اسی دنیا سے محبت بھی بلا کی ہے مجھے

صابر




یہاں پہ ہنسنا روا ہے رونا ہے بے حیائی
سقوط شہر جنوں کا ماتم ذرا الگ ہے

صابر




یہ کاروبار محبت ہے تم نہ سمجھوگے
ہوا ہے مجھ کو بہت فائدہ خسارے میں

صابر




یہ کیا بدمذاقی ہے گرد جھاڑتے کیوں ہو
اس مکان خستہ میں یار ہم بھی رہتے ہیں

صابر