EN हिंदी
آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو | شیح شیری
aahista boliyega tamasha khaDa na ho

غزل

آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو

صابر

;

آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو
بیرون خواب کوئی ہمیں سن رہا نہ ہو

دیواریں اٹھ گئی نہ ہوں دشت جنون میں
رم خوردہ وہ غزال کہیں گمشدہ نہ ہو

رخت سفر میں باندھ لیں پر شور کچھ بھنور
دریا ہے پر سکون سفر بے مزہ نہ ہو

یوں تو وہ ایک عام سا پتھر ہے میل کا
لیکن وہاں سے آگے اگر راستہ نہ ہو

مسجد پکارتی رہی حی علی الفلاح
جیسے ہمارا اپنا کوئی فلسفہ نہ ہو

ہم کاٹ دیں گے عمر کی زنجیر ایک دن
ہم زاد کرب دید سے شاید رہا نہ ہو

اک چاند مجھ کو تاکتا رہتا ہے ان دنوں
جیسے سوائے میرے کوئی آئینہ نہ ہو

ہنس ہنس کے اس سے باتیں کیے جا رہے ہو تم
صابرؔ وہ دل میں اور ہی کچھ سوچتا نہ ہو