ہماری بے چینی اس کی پلکیں بھگو گئی ہے
یہ رات یوں بن رہی ہے جیسے کہ سو گئی ہے
دیے تھے کالی گھٹا کو ہم نے ادھار آنسو
کسے کہیں اب کہ ساری پونجی ڈبو گئی ہے
ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی
فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہو گئی ہے
وہ ایک ساحل کہ جس پہ تم خود کو ڈھونڈتے ہو
وہیں پہ اک شام میرے حصے کی کھو گئی ہے
میں یوں ہی مہرے بڑھا رہا ہوں جھجک جھجک کر
خبر اسے بھی ہے بازی وہ ہار تو گئی ہے

غزل
ہماری بے چینی اس کی پلکیں بھگو گئی ہے
صابر