EN हिंदी
اخیر شب سرد راکھ چولھے کی جھاڑ لائیں | شیح شیری
aKHir-e-shab sard rakh chulhe ki jhaD laen

غزل

اخیر شب سرد راکھ چولھے کی جھاڑ لائیں

صابر

;

اخیر شب سرد راکھ چولھے کی جھاڑ لائیں
تمہاری یادوں کے آئنے پھر سے جگمگائیں

گلی کے نکڑ پر اب نہیں ہے وہ شور پھیلا
بھلائی اس میں ہے ذائقے ہم بھی بھول جائیں

رکھے رکھے ہو گئے پرانے تمام رشتے
کہاں کسی اجنبی سے رشتہ نیا بنائیں

وہ ہنسی آنکھیں جلائے دیتی ہیں جاں ہماری
نواح جاں میں غبار آہ و بکا اڑائیں

ہماری سب لغزشیں ہیں محفوظ ڈائری میں
تبھی تو ہیں مدعی کہ کم کم ملی سزائیں