EN हिंदी
مختصر ہی سہی میسر ہے | شیح شیری
muKHtasar hi sahi mayassar hai

غزل

مختصر ہی سہی میسر ہے

صابر

;

مختصر ہی سہی میسر ہے
جو بھی کچھ ہے نہیں سے بہتر ہے

دن دہاڑے گناہ کرتا ہوں
معتبر ہو نہ جاؤں یہ ڈر ہے

منچ پر کامیاب ہو کہ نہ ہو
مجھ کو کردار اپنا ازبر ہے

سب کو پتھرا دیا پلک جھپکے
ہم نہ کہتے تھے شعبدہ گر ہے

عین ممکن ہے وہ پلٹ آئے
میرا ایمان معجزوں پر ہے

پہلے موسم پہ تبصرہ کرنا
پھر وہ کہنا جو دل کے اندر ہے

سارے منظر حسین لگتے ہیں
دوریاں کم نہ ہوں تو بہتر ہے

راستے بین کر رہے ہیں کیوں
کیا مسافت یہ انتہا پر ہے

فصل بوئی بھی ہم نے کاٹی بھی
اب نہ کہنا زمین بنجر ہے